منگل، 26 نومبر، 2013

ھمارےؑ جنرل کونسلر

ھمارےؑ جنرل کونسلر

گےؑ دنوں کی بات ھے ھمارا ایک دوست شاھد ھوا کرتا تھا ایک بار موصوف کو کچھ دستاوزات کی تصدیق کے لیۓ اپنے علاقہ کے کونسلر صاحب مطلوب تھے ، ھمارے ملک میں تو کونسلر بھی جیت کر محلہ سے یوں غائب ھوتے ھیں جیسے گدھے کے سر سے سینگھ اور پولیس کے ڈر سے چور ، خیر اتفاق سے راہ جاتے یوں مل ھی گۓ جیسے غریب کی لاٹری نکل آتی ھے، شاھد صاحب نے اپنا معمولی سا کام بیان کیا تو جناب نے گھر آہ کر ملنے کا وقت بتا دیا اور ساتھ جاۓ کی دعوت بھی دے دی ، گھر پہ ملنے کی ایک وجہ شاید سرکار سے گلہ ھو گا کہ کونسا ھمیں آفس آلاٹ کیےؑ ھیں، خیر مقررہ وقت پر وہ گھر پحنچا تو بھائی صاحب باھر آےؑ اطلاع ملی کے صاحب گھر پر نھیں ، بھر کیا تھا جناب ایسے چکر لگے جیسے مداری بندر کو لگواتا ھے، کبھی تو گھر پر نھیں ھوتے کبھی ھونے کے باوجود اطلاع آتی کے صاحب گھر پر نھیں، ایک دن خدا خدا کر کے گھر پر مل ھئ گے تو صاحب جناب نے قلم نہ ھونے کا دکھڑا سنا دیا اب شاھد صاحب بھی اتنے چکر لگا کر عقل مند ھو چکے تھے جیب سے قلم نکال کر صاحب کو پیش کر دی، کونسلر صاحب کے پاس اب نی کرنے کے لیۓ کوئی بیانہ نھیں بچا تھا تو جناب نے دستاوزات بہ ھی اعتراز لگا دیا جیسے پیسے نہ ملنے پر پاسپورٹ کا عملہ لگاتا ھے ،
کچھ عرصہ بعد مجھے اطلاع ملی کے شاھد صاحب کے دستاوزات کی تصدیق ھو چکی لکین دستاوزات داخل کروانے کی تاریخ گزر چکی ھے
،

اتوار، 24 نومبر، 2013

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

یہ 1998ٰٰء کی بات ھے ۔ اسلامیہ ھائ اسکول میں ھماری جماعت انچارچ مقصود صاحب ھوا کرتے تھے ، جن کا روعب ساری جماعت پر اپنا خوب ھوا کرتا تھا اسکول آتے ھوےؑ جب وہ اپنی موٹر سایکل سفید لٹھے کی شلوار قمیض اور چہرے پر سیاہ چشمہ لگا کر آتے تو روعب اور بھی بڑھ جاتا، اب شاہد ان کا تبادلہ یا مدت ملازمت مکمل ھو چکی، ھماری جماعت میں ایک خوش مزاج طالب علم ْ ْکامران صدیقی ْ ٌ ھوا کرتا تھا ،جو شاہد مسٹر بین سے بہت متاثر تھا ، یہ ان دنوں کا واقعہ جب اسکول میں اسپورٹس ڈے چل رھے تھے حاضری اور پڑھاٰئ پر زرا توجہ اتنی نھی دی جاتی،کامران اور کچھ دوست موقع پا کر اسکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر اسکول کی جیل سے فرار ھونے میں کامیاب ھو گے، یہ شاید ان کی ایسی پہلی کوشیش حرکت تھی وہ اس میں کامیاب تو ھو گے لکین ٌ اٌستاذ ْ کو کچھ اور ھی منظور تھا، واقعہ کے اگلے ھی دن جماعت میں موجود کچھ شرپسند عناصر جو ھر دور میں موجود ھوتے ھیں اس واقعہ کی تفصیل مقصود صآحب کے روبارو ح کر دی ، جسکا فوری سوموٹو ایکشن لیتے ھوےؑ انھوں نے سب طالب علموں کو لائن حاضر کر لیا، اب اٌستاذ جی اس دن یا تو گھر سے ھائی کمان سے یا باھر کسی نا خشگوار واقعہ سے متاثر ھو کر آے تھے، چھڑی اٹھائ اور باری باری ان طالب علموں کو سزا سے روشناس کروانے لگے رویا اتنا سخت تھا کے پوری جماعت پر لرزہ طاری ھو گیا، اب باری آہ گی کامران صاحب کی لرزتی ٹانگوں رونی صورت سھما ھوا چہرہ اور آنسو ڈر کی وجہ سے نکلنے کے قریب تھے، مقصود صاحب ںے پہلا وار کیا جو قسمت سے خالی گیا کامران صاحب نے رونے کی ایکٹینگ کرتے ھوےؑ چھڑی کو تھام لیا مقصود صاحب کا غصہ اور بڑھ گیا،دوسرا وار ھونا ھئ تھا کے اگلے ھی لمحے ایک نہایت ھی موضوع ترکیب اچانک اس کے دماغ میں ٹپک پڑی، یہ جملہ کیسے اس کے ذھن میں آیا ، ْ سر جی میرئ ایک بات پیلے سن لیں ''سر جی میرا ضمیر زندہ ھو گیا " ایک خاموشی کے بعد ایک دور دار قحقہ پوری فضاء میں بلند ھوا ، اور مقصود صاحب کے غصے کا لیول ایک دم سے نچے آہ گیا جو کوہ ھمالیہ کی چوٹی کو چھو رھا تھا وہ بھی اپنی ھنسی کو قابو نہ کر سکے، پوری جماعت پر جو ایک خوف کا عالم تھا جوشی میں تبدیل ھو گیا، اور مقصود صاحب نے اٌسے کچھ سزا دے بغیر حھوڑ دیا' ؎

ھمارے وطن کی حالت بھی ایسے ھی غلطیوں سے بھرئ ھوئ ھے لکیں فرق صرف اتنا ھے کے ھمیں ھر طرف سے مار تو پڑ رھی ھے لکین ھمارہ ضمیر تو اتنا مردہ ھو چکا کے جھوٹ ؐموٹ کا بھی زندہ نھی ھوتا ، مار کھانے والے تو اس بات سے نالاں ھے اور الٹا مطالبہ کرتے ھٰں کے مارنے والوں کی تعداد بڑھائ جاےؑ،

تحریر و یاداشت۔ عبدالرٌحمان طارق

تنگ نظر

تنگ نظر

دیگر ممالک کی طرح آج فرانس میں بھی ھالووین شکلیں بگاڑنے کا عالمی دن منایا گیا، جس میں کچھ اپنے ھم وطن اور ایشیائی بشندوں نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،جن لوگوں کا ثقافتی دن ھے ان کا تو اپنی ثقافت کے طور بر یہ سب کچھ کرنا ٹھیک لکین ھمارے مسلمانوں کا اس ظرح شکلیں بگاڑنا کچھ عجیب سا لگا ، غلطی سے ھم پوچھ بیٹھے تو جواب ملا '' ایک تو آپ جیسے تنگ نظر لوگ یہاں آہ کر بھی روشن خیال نہں ھوتے اور ھمیشہ پچھے ھے رھتے ھیں کبھی ترقی نہں کر سکتے'' بئی ھم ان کے ملک میں رھتے ھیں ان کی ثقافت اپنانی چاھیے، شاید بات اس نے ٹھیک کی میرے جیسئ سوچ والے کبھی ترقی نیں کر سکتے،
کام سے فارغ ھوا تو گھر کی راہ لی، میڑو میں سوار ھوا تو چند مہزب نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ماسک اور رنگ چڑھاےؑ گیت گاتے ھوےؑ وھاں پہلے سے موجود تھے، شروع میں تو اٌن کو دیکھ کر اپنی تنگ نظری کو پش پشت ڈالتے ھوےؑ ان کو دیکھ کر لطف اندوز ھونے کی ناکام کوشیش کی، میڑو کا اسٹاپ آیا تو دو مہزب نوجوان نے میڑو کے دروازں کو ھی واش روم کا دروازہ سمجھتے ھوےؑ اپنی پتلون کا روشن دان کھول کر باھر لگے پودوں کو پانی دینے لگے،ان میں سے ایک اچھی ثقافت اور مہزب معاشرے کی نوجوان نے میرئ حقارت بھرئ نظروں کو بھانپتے ھوۓ الکوحل کی خالی بوتل میرے پاوؑں کے قریب دے ماری جو میرے باوؑں کو چھوتی ھوئی گزر گئی، میرا اسٹاپ آیا تو گھر کی راہ لی،
راستے میں مجھے اپنے ھم وطن کی بات یاد آ رھی تھی، اور گھر پہنچنے تک میں دوبارہ تنگ نظر ھو چکا تھا،

آپ بیتی :عبدالرحمان طارق

ایک قوم ایک پاکیستانی

ایک قوم ایک پاکستانی

محرم کے مہینہ کے ساتھ اسلامی سال کا آغاز ھوا- اس مہینہ کی اصل اھمیت اور مقصد ھم کھو چکے ھیں ـ اغاز ھوتے ھئ کی ایسے مسلمانوں کا اسلام جاگ جاتا جہنوں نے قرآن کی اس آیات کو مکمل پڑھنا بھی مناسب بہ سمجھا کہ ٗ ْ نماز کے قریب مت جاوؑ '' اس آیت کا دوسرا حصہ پڑھنا کا ان کا آج تک وقت نھیں ملا اور اتنی آہت سے ھئ کام چلا رھے ھیں ، اور شروع ھو جاتے ھیں ایک دوسرے کو کافر لعنتی اس کے علاوہ بھی بہت غیر مہزب القاب دہیے جاتے ھیں ،شعیہ اھل حق ھے یا سنی اسلام کے بقا کی جنگ لڑھ رھا
۔ یہ فیصلہ اللہ بر چھوڑ دیں جو بہتر جانتااور بھائی بھائی بن جائیں ویسے بھی اپنے کرنے والا کام ھم سے ھوتا نھیں اور اللہ کے کاموں میں دخل دیتے ھیں-

ویسے تو ھمارئ قوم 'معاف کجیے گا ' قوم ' کا لفظ استمال کیا ھر بات پر منتشر دیکھائی دیتی ھے ملالہ ، طالبان ،سلالہ ، سیاست ، فوج ، کوئی ایک قومی ایشو اٹھا کر دیکھ لیں ھر ایشو پر پاکستان سے لے کر 1947ء ، 1971 ، اور آج تک تقسیم کا عمل جاری ھے، پاکستان سیکولر ریاست کے طور پر بنا یا اسلامی ریاست ، قایداعظم سیکولر تھے یا مزھبی ، مارشل لا ؑ کا دور بہتر یا جمہورئ، بھٹو کو اپنے کیے کی سزا ملی یا شہید ، ضیاء اسلام کا نفاز چاھتا تھا یا منافق ، سلمان تاثیر شہید ھوا یا ممتاز قادری غازی ، حکیم اللہ محسود شہید ھوا یا اپنے انجام کو پُہنچا ، ھر ایک کا اپنا زاتی نقطہ نظر ھوتا ضرور ھے لکین قومی مسائل پر ھم سب کو ایک ھو جانا چاھیے، اس میں زیادہ کردار تو ویسے ھمارے زرائع ابلاغ کا ھے بورا دن سیاستدانوں اور بکاوؑ دانشور کو بٹھا کر دس بارہ سالوں سے فضول میں قوم کو زہنی مریض بنا رھے آج تک کسی پروگرام سے مسائل کا حل نکلا؟ سواےؑ آپس میں لڑوانے سے قوم کو مختلف حصوں میں تقسیم کرنے کے جو پہلے ھی حصوں میں بٹی ھوئی ان کو اس سے کوئی پرواہ نہں بس ان کا کاروبار چلنا چاھیے قوم بھوک سے مر رھئ ھے اور ان کا سب سے بڑا مسلہؑ وینا ملک اور شیخ رشید کا مسالہ دار مقالمہ ھے ،کسی اداکار کی نجہی زندگی کے اسکنڈل ، کسی سیاستدان کی گھریلو مسائل یہ کیا ھے انسان کو ان انہی چیزوں میں اتنا مگن کر دو کے یہ حقیقت کے بارے میں سوچ ھی نہ سکیں،
ایسے ہی لوگ ہیں کہ جن کے بارے الله کریم و رحیم ارشاد فرماتا ہے کہ :
"جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ، وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کر رہے ہیں ، خبردار رہو کہ یہی فسادی ہیں مگر انہیں شعور نہیں ".
کوئی کیسے اٹھارہ کروڑ پر اپنی دھونس چلا سکتا ہے کوئی کیسے اٹھارہ کروڑ کو شکست دے سکتا ہے، اتنی بے بسی اتنی لاچارگی اور اتنی ذلّت کیوں ہے؟ پھر دماغ سے ایک آواز آتی ہے کہ ہم اٹھارہ کروڑ کہاں ہیں ..ہم تو چوٹی چوٹی ٹولیاں ہیں .. کوئی شیعہ سنی ہے تو کوئی پنجابی سندھی بلوچی پٹھان رہی سہی کسر ان سیاسی جماعتوں نے پوری کر دی ...کاش ک ہم سب صرف ایک انسان ، ایک مسلمان اور ایک پاکستانی بن جائیں
صرف اور صرف ایک پاکستانی

تحریر ۔ عندالرحمان طارق

دین کی حقانیت

دین کی حقانیت

کیا ھم مسلمان اللہ کی واحدانیت پر اور اس کی حقانیت پر ایمان نہیں رکھتے جو روٹی پھل اور جانورں پر اس کا نام تلاش کرتے ھیں ، کیا ھمیں قرآن کی سچائی پر یقین نھیں جو سائنسدانوں کے تجربوں کے بعد قرآن کے سچا ھونے کا سرٹیفیکیٹ لیتے ھیں، چودہ سو چونتیس سال گزر جانے کو بعد بھی ابھی تک ھم اپنے دین کی حقانیت کی تلاش میں ھیں ، جبکہ ھمارے دین کے علم کی بدولت آج کفار اپنے نظام کو کامبیاب کر چکا حلانکہ انھوں نے تو اس کے سچا ھونے کا یقین نھیں کیا ، خدا را اپنے منصب کو پہچانیے !! اللہ ھمیں دین پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ، آمین !!!
جزاک اللہ ، عبدالرحمان طارق

آوؑ محبتیں بانٹیں


آوؑ محبتیں بانٹیں

اپنے نظریات اور عقائد ایک دوسرے پر مُسلط کرنے کی بجاۓ دل میں رکھیں ، اتنا جان لیں ھر ایک اللہ کے سامنے اپنی نیتوں اور اعمال کا جوابدہ ھو گا، ایسی باتیں پھلانے سے گریز کریں جن سے دوسرے کے دل کو ٹھیس پحنچے معاشرے میں نفرت پیدا ھوں ،نفرت سے ہم دوسروں کا ہی نقصان نہیں کرتے بلکہ خود اپنی شخصیت کی خوبصورتی کو بھی تہس نہس کر کے رکھ دیتے ہیں۔ اسلام امن اور محبت کا مذہب ہے، جو اخوت اور محبت کا درس دیتا ہے،
انسان سے غلطیاں اور خطائیں نا چاہتے ہوئے بھی سر زد ہو جاتی ہیں مگر اپنی غلطیوں کو تسلیم نھیں کرتے ھماری اناء آڑے آہ جاتی، معاشرے میں امن کی فضاء پیدا کریں بس یہی خیال رکھیں کہ اپنی ذات سے کسی کو بھی نقصان نہ پہنچائیں بلکہ سب سے محبتیں بانٹیں نفرتیں دور کریں، جزاکؑ اللہ

عبدالرحمان طارق