اتوار، 24 نومبر، 2013

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

''خوشگوار واقعہ اور ضمیر کا زندہ ھونا''

یہ 1998ٰٰء کی بات ھے ۔ اسلامیہ ھائ اسکول میں ھماری جماعت انچارچ مقصود صاحب ھوا کرتے تھے ، جن کا روعب ساری جماعت پر اپنا خوب ھوا کرتا تھا اسکول آتے ھوےؑ جب وہ اپنی موٹر سایکل سفید لٹھے کی شلوار قمیض اور چہرے پر سیاہ چشمہ لگا کر آتے تو روعب اور بھی بڑھ جاتا، اب شاہد ان کا تبادلہ یا مدت ملازمت مکمل ھو چکی، ھماری جماعت میں ایک خوش مزاج طالب علم ْ ْکامران صدیقی ْ ٌ ھوا کرتا تھا ،جو شاہد مسٹر بین سے بہت متاثر تھا ، یہ ان دنوں کا واقعہ جب اسکول میں اسپورٹس ڈے چل رھے تھے حاضری اور پڑھاٰئ پر زرا توجہ اتنی نھی دی جاتی،کامران اور کچھ دوست موقع پا کر اسکول کی عقبی دیوار پھلانگ کر اسکول کی جیل سے فرار ھونے میں کامیاب ھو گے، یہ شاید ان کی ایسی پہلی کوشیش حرکت تھی وہ اس میں کامیاب تو ھو گے لکین ٌ اٌستاذ ْ کو کچھ اور ھی منظور تھا، واقعہ کے اگلے ھی دن جماعت میں موجود کچھ شرپسند عناصر جو ھر دور میں موجود ھوتے ھیں اس واقعہ کی تفصیل مقصود صآحب کے روبارو ح کر دی ، جسکا فوری سوموٹو ایکشن لیتے ھوےؑ انھوں نے سب طالب علموں کو لائن حاضر کر لیا، اب اٌستاذ جی اس دن یا تو گھر سے ھائی کمان سے یا باھر کسی نا خشگوار واقعہ سے متاثر ھو کر آے تھے، چھڑی اٹھائ اور باری باری ان طالب علموں کو سزا سے روشناس کروانے لگے رویا اتنا سخت تھا کے پوری جماعت پر لرزہ طاری ھو گیا، اب باری آہ گی کامران صاحب کی لرزتی ٹانگوں رونی صورت سھما ھوا چہرہ اور آنسو ڈر کی وجہ سے نکلنے کے قریب تھے، مقصود صاحب ںے پہلا وار کیا جو قسمت سے خالی گیا کامران صاحب نے رونے کی ایکٹینگ کرتے ھوےؑ چھڑی کو تھام لیا مقصود صاحب کا غصہ اور بڑھ گیا،دوسرا وار ھونا ھئ تھا کے اگلے ھی لمحے ایک نہایت ھی موضوع ترکیب اچانک اس کے دماغ میں ٹپک پڑی، یہ جملہ کیسے اس کے ذھن میں آیا ، ْ سر جی میرئ ایک بات پیلے سن لیں ''سر جی میرا ضمیر زندہ ھو گیا " ایک خاموشی کے بعد ایک دور دار قحقہ پوری فضاء میں بلند ھوا ، اور مقصود صاحب کے غصے کا لیول ایک دم سے نچے آہ گیا جو کوہ ھمالیہ کی چوٹی کو چھو رھا تھا وہ بھی اپنی ھنسی کو قابو نہ کر سکے، پوری جماعت پر جو ایک خوف کا عالم تھا جوشی میں تبدیل ھو گیا، اور مقصود صاحب نے اٌسے کچھ سزا دے بغیر حھوڑ دیا' ؎

ھمارے وطن کی حالت بھی ایسے ھی غلطیوں سے بھرئ ھوئ ھے لکیں فرق صرف اتنا ھے کے ھمیں ھر طرف سے مار تو پڑ رھی ھے لکین ھمارہ ضمیر تو اتنا مردہ ھو چکا کے جھوٹ ؐموٹ کا بھی زندہ نھی ھوتا ، مار کھانے والے تو اس بات سے نالاں ھے اور الٹا مطالبہ کرتے ھٰں کے مارنے والوں کی تعداد بڑھائ جاےؑ،

تحریر و یاداشت۔ عبدالرٌحمان طارق

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں